یہ کہانی ایک غریب بندے کی ہے جس کا نام احمد تھا۔ احمد ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا جہاں زندگی کی بنیادی ضروریات بھی مشکل سے ملتی تھیں۔ اس کے والدین کا سایہ بچپن میں ہی سر سے اٹھ گیا تھا، اور وہ اپنے چچا کے گھر میں پل بڑھ رہا تھا۔
احمد کے چچا غریب ہونے کے باوجود دل کے بہت بڑے تھے۔ انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق احمد کو پڑھانے کی کوشش کی، مگر گاؤں کے سرکاری اسکول میں تعلیم کا معیار بہت کمزور تھا۔ احمد کو احساس تھا کہ تعلیم ہی اس کی زندگی بدل سکتی ہے، مگر وسائل کی کمی اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھی۔
ایک دن احمد نے فیصلہ کیا کہ وہ شہر جائے گا اور وہاں کوئی کام کرے گا تاکہ وہ اپنی پڑھائی جاری رکھ سکے۔ اپنے چچا کی اجازت سے وہ شہر روانہ ہو گیا۔ شہر میں پہنچ کر احمد کو ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ملازمت ملی۔ وہ دن بھر محنت کرتا اور رات کو ایک کونے میں بیٹھ کر پڑھائی کرتا۔
وقت گزرتا گیا، اور احمد کی محنت رنگ لائی۔ وہ دن کے وقت ہوٹل میں کام کرتا اور رات کو شہر کی لائبریری میں بیٹھ کر پڑھائی کرتا۔ اس نے میٹرک کے امتحان میں نمایاں نمبر حاصل کیے اور ایک اسکالرشپ حاصل کی، جس کے ذریعے وہ کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گیا۔
کالج کی پڑھائی کے دوران بھی احمد نے محنت کا دامن نہیں چھوڑا۔ وہ دن رات ایک کر کے پڑھتا رہا اور آخر کار اس نے انجنئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ آج وہ ایک بڑی کمپنی میں انجنیئر کے عہدے پر فائز ہے۔
احمد کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ محنت اور عزم کے ساتھ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ غربت اگرچہ ایک بڑی رکاوٹ ہو سکتی ہے، لیکن حوصلہ، عزم اور محنت سے ہر مشکل کو شکست دی جا سکتی ہے۔ احمد نے اپنی محنت اور صبر کے ذریعے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے ایک بہتر مستقبل بنایا۔
0 Comments