👉💯💯💯👈

زہرہ کنول اعوان، مظفر گڑھ عامر ہمیشہ اپنی والدہ کی نصیحت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا۔ سب گھر والے اس کی اس عادت سے بہت تنگ تھے۔ وہ گھر کی ساری جمع پونجی اپنے نشے کی بری عادت میں صرف کر دیتا۔ اس کا ایک ہی بھائی عمران تھا، جو بہت محنتی تھا۔ عامر کے والد تین سال پہلے وفات پا گئے۔


ان کی وفات کے بعد عمران نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر کا نکل خرچ سنبھال لیا۔ وہ صبح سویرے کام کی تلاش . م کی تلاش میں گھر سے جاتا اور شام کو واپس لوٹ آتا، لیکن عامر بری صحبت میں پڑ گیا اور اسے نشے کی لت پڑ گئی۔ اس کے گھر والوں نے اسے بہت سمجھایا، لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ اس کے دوست


اسے اس کے گھر والوں کے خلاف ورغلاتے اور وہ ان کی باتوں میں آجاتا۔ (جاری ہے) ایک روز عامر نشہ کر کے رات کو دیر سے گھر پہنچا اور چلا کر اپنی والدہ سے کھانا مانگا تو اس پر اس کی والدہ نے کہا: ”عامر بیٹا! گھر میں کچھ کھانے کو نہیں ہے۔ “ یہ سن کر عامر طیش میں آگیا، کیونکہ اسے بہت زیادہ بھوک لگ رہی تھی اور چلا چلا کر اپنی والدہ کو برا بھلا کہنے لگا۔ عمران نے اسے روکا، مگر اس نے کسی کی ایک نہ سنی۔ عمران نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔ ان کی والدہ یہ سب دیکھ کر بلک بلک کے رو رہی تھیں۔ اگلی صبحماں نے عامر سے کہا: ” پہلے کام کر ، رقم لا، پھر گھر میں کھانا پکے


کر وہاں سے باہر نکل گیا۔ جب وہ اپنے دوستوں کے پاس پہنچا تو اس کے پاس ہے نہ ہونے کی وجہ سے اس کے دوست اس سے جھگڑا کرنے لگے اور اسے اتنا مارا کہ وہ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑا۔ وہ گلی میں بے ہوش پڑا تھا۔ تب چچا کرم داد کا وہاں سے گزر


گا۔“ یہ سن کر عامر آگ بگولہ ہو گیا۔ وہ اپنی ماں کو دھکا دے برے رویے اور بری صحبت کی معافی مانگی تو اس کی والدہ نے اسے


ہوا۔ انھوں نے عامر کو اس حالت میں پایا اور وہ اسے اسپتال لے گئے اور وہاں سے جب اس کے گھر میں اس کی ماں کو بچالیا تو وہ بہت پریشان ہوئی۔ جب عمران واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبا تھا اور وہ بہت خوش لگ رہا تھا، کیونکہ اس کی ایک فیکٹری میں نوکری لگ گئی تھی۔ اس کی والدہ بہت خوش ہوئیں، لیکن


جب عمران کو عامر کی اس بات کا علم ہوا تو وہ بہت پریشان ہوا۔ اب عامر کو اپنے برے رویے اور بری صحبت کی سزا مل گئی تھی۔ وہ اب بھی نقابت محسوس کر رہا تھا۔ اس نے اپنی والدہ سے اپنے


معاف کر دیا۔ کچھ دن بعد عامر نے ایک سرکاری اسکول میں داخلہ لے لیا۔ اب عامر دل لگا کر پڑھائی کرنے لگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ


ان کے گھریلو حالات اچھے ہو گئے۔