یہ کہانی ایک دور دراز گاؤں کی ہے جہاں ایک عجیب و غریب دنیا وجود رکھتی تھی۔ اس گاؤں کا نام "خیال نگر" تھا، جہاں دن اور رات کی تمیز نہ تھی۔ وہاں سورج کے بجائے آسمان پر رنگ برنگے بادل تیرتے رہتے تھے، اور چاندنی کی جگہ ستارے زمین پر آ کر چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ 


خیال نگر کے باسی انسان نہیں بلکہ خیالات تھے۔ جی ہاں، وہ خیالات جنہیں ہم اکثر اپنے دماغ میں سوچتے ہیں۔ یہاں خیالات کا الگ ہی روپ تھا۔ کچھ خیالات خوشبو کی مانند پھولوں کی طرح کھلتے تھے، کچھ بارش کی طرح برستے تھے، اور کچھ ہوا کی طرح بے قابو ہوتے تھے۔


اس دنیا کا بادشاہ "فکر" تھا، جو ہمیشہ ہر خیال کی حفاظت کرتا تھا اور اسے مثبت سمت میں لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ فکر کی ایک بیٹی تھی جس کا نام "امید" تھا۔ امید کا کام تھا ہر اداس اور مایوس خیال کو خوشیوں کی چادر میں لپیٹ دینا۔


ایک دن "خیال نگر" پر ایک سایہ دار خیال نے حملہ کر دیا۔ یہ خیال "مایوسی" کہلاتا تھا۔ مایوسی کی آمد سے تمام خوشی اور روشنی ختم ہو گئی، اور خیال نگر پر اندھیرا چھا گیا۔ ہر کوئی پریشان تھا کہ اب کیا ہوگا۔


ایسے میں امید نے اپنے والد فکر سے کہا کہ ہمیں اس اندھیرے سے لڑنا ہوگا۔ فکر نے اپنی بیٹی کو اجازت دی اور امید نے اپنے دوست "خواب" کو مدد کے لیے بلایا۔ خواب نے اپنی جادوئی آنکھیں کھولیں اور آسمان پر روشنی کی ایک لکیر بنائی جس سے پورا گاؤں روشن ہوگیا۔


مایوسی کو جب اندازہ ہوا کہ امید اور خواب کی طاقت اس سے زیادہ ہے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا اور خیال نگر پھر سے خوشیوں سے بھر گیا۔ اب خیال نگر میں ہر طرف امید اور خواب کے گیت گائے جاتے ہیں، اور مایوسی کا سایہ کبھی دوبارہ وہاں قدم نہیں رکھ سکا۔


یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں، امید اور خواب ہمیں ہمیشہ اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔