ایک زمانے کی بات ہے، ایک شہر میں ایک ایسا شخص تھا جس کا نام فیصل تھا، لیکن لوگ اسے "ڈان" کے نام سے جانتے تھے۔ وہ شہر کا سب سے طاقتور اور خطرناک انسان تھا۔ فیصل ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا، لیکن اس کے خواب بڑے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے خاندان کو غربت سے نکالے اور شہر کا بادشاہ بنے۔


فیصل نے جوانی میں ہی جرم کی دنیا میں قدم رکھا اور تھوڑے ہی عرصے میں اپنے مخالفین کو شکست دے کر پورے شہر پر اپنی حکمرانی قائم کر لی۔ اس کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی دلکشی تھی، اور اس کے دشمن بھی اس سے ڈرتے تھے۔


ڈان کی زندگی کا سب سے اہم اصول تھا کہ وہ کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکتا۔ وہ اپنے اصولوں پر قائم رہتا اور کسی کو بھی اس کی پرواہ نہیں تھی کہ اس کے راستے میں کون آتا ہے۔ فیصل نے اپنے دشمنوں کو ایک ایک کر کے ختم کر دیا اور شہر کے تمام جرائم پیشہ گروہوں کو متحد کر کے اپنا گروہ بنا لیا۔


لیکن فیصل کے دل میں ایک خالی پن تھا۔ وہ اپنے تمام دشمنوں کو شکست دے چکا تھا، لیکن اس کے دل کو سکون نہیں مل رہا تھا۔ وہ ہمیشہ سوچتا تھا کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کیا صرف طاقت اور دولت ہی سب کچھ ہے؟


ایک دن فیصل کی ملاقات ایک عالم دین سے ہوئی۔ وہ عالم دین ایک بہت ہی عقلمند اور نیک شخص تھا۔ اس نے فیصل کو سمجھایا کہ دنیا کی سب چیزیں فانی ہیں اور حقیقی خوشی صرف اللہ کی رضا میں ہے۔ فیصل کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی اور اس نے اپنے ماضی کے گناہوں سے توبہ کر لی۔


فیصل نے اپنی باقی زندگی لوگوں کی مدد کرنے میں گزاری اور شہر کے غریبوں کے لئے بہت سارے فلاحی کام کئے۔ وہ ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے اللہ کی رضا کی تلاش میں رہا اور آخرکار اس نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں سکون پایا۔


اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دنیاوی دولت اور طاقت انسان کو وقتی خوشی دے سکتی ہے، لیکن حقیقی خوشی اللہ کی رضا میں ہی ہے۔