ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک امیر آدمی تھا جس کی تین بیٹیاں تھیں سب سے چھوٹی کا نام شہزادی بانو تھا سیدہا اس آدمی کو تجارت کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑا اس نے اپنی تینوں بیٹیوں سے پوچھا کہ وہ آتے ہوئے ان کے لئے کیا لے کر آئے بڑی دونوں بیٹیوں نے لمبی فرمائش کر دی ایک کہنے لگی گہنے اور ایک کہنے لگے کپڑے لا دینا ابا جان جاب بانو کی باری آئی تو اس نے کہا کہ مجھے ایک گلاب کا پھول چاہیے باب فروشوں کی لسٹ لیکر سفر پر روانہ ہو گیا لیکن راستے میں اس کا جہاز سمندر میں ڈوب گیا تجارت کا سارا سامان پانی میں بہہ کر رہ گیا اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا جاؤ وہ مایوسی سے واپس لوٹ رہا تھا تو اسے بھوک نے ستایا اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک بڑا سا محل ہے اور باہر بہت خوبصورت پھول لگے ہوئے ہیں یہ محل کے اندر چلا گیا اس نے لوگوں کو آوازیں دیں لیکن وہاں کوئی نہیں تھا اس نے محل کے ایک بڑے کمرے میں جا کر تھوڑی دیر آرام کیا پھر ٹیبل پر لگا کھانا کھایا پیٹ بھر کھانا کھانے کے بعد اس نے واپس روانہ ہونے کا سوچا تو باہر دیکھا ایک پھول کی کتاب لگی ہوئی تھی تو اسے بانو کی یاد آئی اور اس نے وہاں سے ایک پھول توڑ لیا جیسے ہی ایک اس نے پھول توڑا تو وہاں ایک درندہ آ گیا جسے دیکھ کر آدمی خوف زدہ ہو کر رہ گیا تھااس بندے نے اس سے کہا کہ تم نے میرے گھر سے کھانا کھایا اور میرے گھر پر آرام کیا اور تمہیں اب اس کا بدلہ دینا پڑے گا اس آدمی نے کہا کہ میں کیا کروں اب بندے نے کہا کہ تمہاری کتنی بیٹیاں ہیں اس آدمی نے جواب دیا میری تین بیٹیاں ہیں بندے نے کہا کہ ان میں سے جو سب سے خوبصورت ہوگی تم تم اس کو میرے پاس بھیجو گے ورنہ میں تمہیں تمہاری بیٹیوں کو مار ڈالوں گا لاہور میں گھر آیا تو اسے اس درندے کی بات بار بار یاد آ رہی تھی جب لڑکیوں نے اپنی اپنی چیزوں کا مطالبہ کیا تو اس آدمی نے اپنی بیٹیوں کو پورا واقعہ سنایا لیکن بڑی دونوں بیٹیوں نے ایک بندے کے پاس جانے سے منع کردیا اس آدمی نے کہا کہ اگر اتم تینوں میں سے اگر کوئی بھی نہ گیا تووہ تم تینوں کو مار ڈالے گا یہ سن کر چھوٹی بیٹی بانو بول پڑی کہا میں اس بندے کے پاس جاؤ گی وہ آدمی زور زور سے رونے لگا اور کہنے لگا کہ وہ اس درندے نے شرط رکھی ہے کہ تم اب ہم سے دوبارہ کبھی نہیں ملوں گی باندی لیکن وہ اپنے ماں باپ اور بہن سے دور ہو کر بہت اداس تھی اور رونے لگی اب اس کادرندے کے پاس جانے کا وقت آ گیا تھا وہ بہت اداس ہیں لیکن وہ چلی گئی گھر انداز کا بہت خیال رکھتا تھا لیکن وہ اسے اتنا ڈرتی تھی اس کے پاس بھی نہیں جایا کرتی تھی بانو از آ کر بہت اداس تھی ادھر ندے نے دیکھا کہ وہ بہت کمزور ہورہی ہے اور بہت بیمار رہنے لگی ہے تو اس نے اسے اس کے باپ کے پاس بھیج دیا اور کہا کہ اگر تم نے واپس آ کر مجھ سے شادی نہ کی تو میں مر جاؤں گا بالوں بہت خوش ہوئی اور وہ واپس اپنے گھر چلی گئیوہاں جاکر دھندے کو بالکل بھول چکی تھی کئی ہفتے گزر گئے سقراط بانو کو خواب آیا کہ دھندہ محل کی بالکنی میں لیٹا مر رہا ہے وہ بہت پریشان ہو گئی اس نے اگلی صبح ہی واپس نہ لانے کا فیصلہ کیا لیکن اس کے باپ نے اس سے کہا کہ آپ اسے واپس جانے کی ضرورت نہیں ہے وہ بہت خوفزدہ تھی وہ زبردستی وہاں چلی گئی اس نے جا کر دیکھا تو واقعی وہ درندہ وہاں لیٹا ہوا تھا اس لیے اس بندے کا ہاتھ پکڑا تو آسان وہ درندہ ایک انسان میں تبدیل ہوگیا وہ انسان بہت ہی خوبصورت نوجوان کسی ملک کا شہزادہ تھا بانو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی تھی اس شہزادے نے کہا کہ میں کہ ایک ملک کا شہزادہ ہوں تم پریشان مت ہو مجھے ایک جادوگر نے ایسا بنا دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر کوئی لڑکی میرا ہاتھ پکڑے گی تو میں پھر سے انسان بن جاؤں گا آج میں تمہاری وجہ سے اتنے سالوں کے بعد پھر سے انسان بن گیا ہوں کیا تم مجھ سے شادی کروگی بانو نے اس کی طرف روتے ہوئے ہاں بول دیا اور ان کی شادی ہو گئی اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے شہزادہ بھی اپنے ملک واپس چلا گیا